سورۃ الشمس آیت ۹ سے ۱۵

سورۃ الشمس آیت ۹ سے ۱۵







 سورۃ الشمس آیت نمبر 9 سے15
قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَكّٰٮهَا ۞ وَقَدۡ خَابَ مَنۡ دَسّٰٮهَا ۞ كَذَّبَتۡ ثَمُوۡدُ بِطَغۡوٰٮهَآ ۞ اِذِ انۡۢبَعَثَ اَشۡقٰٮهَا ۞ فَقَالَ لَهُمۡ رَسُوۡلُ اللّٰهِ نَاقَةَ اللّٰهِ وَسُقۡيٰهَا ۞ فَكَذَّبُوۡهُ فَعَقَرُوۡهَا ۙفَدَمۡدَمَ عَلَيۡهِمۡ رَبُّهُمۡ بِذَنۡۢبِهِمۡ فَسَوّٰٮهَا ۞ وَلَا يَخَافُ عُقۡبٰهَا۞
فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔  
) نفس کو پاکیزہ بنانے کا مطلب یہی ہے کہ انسان کے دل میں جو اچھی خواہشات اور اچھے جذبات پیدا ہوتے ہیں، انہیں ابھار کر اس پر عمل کرے اور جو بری خواہشات اور جذبات پیدا ہوتے ہیں انہیں دبائے اسی طرح مسلسل مشق کرتے رہنے سے نفس پاکیزہ ہو کر وہ نفس مطمئنہ بن جاتا ہے۔ جس کا ذکر سورة الفجر کی آخری آیتوں میں گذرا ہے۔) ۞ اور نامراد وہ ہوگا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے۔ ۞ قوم ثمود نے اپنی سرکشی سے (پیغمبر کو) جھٹلایا۔ ۞ جب ان کا سب سے سنگدل شخص اٹھ کھڑا ہوا۔ ۞ تو اللہ کے پیغمبر نے ان سے کہا کہ : خبردار ! اللہ کی اونٹنی کا اور اس کے پانی پینے کا پورا خیال رکھنا۔ ۞ پھر بھی انہوں نے پیغبر کو جھٹلایا، اور اس اونٹنی کو مار ڈالا نتیجہ یہ کہ ان کے پروردگار نے ان کے گناہ کی وجہ سے ان کی اینٹ سے اینٹ بجا کر سب کو برابر کردیا۔ ( قوم ثمود کے مطالبے پر اللہ تعالیٰ نے ایک اونٹنی پیدا فرمائی تھی، اور لوگوں سے کہا تھا کہ ایک دن کنویں سے یہ پانی پئے گی اور دوسرے دن تم پانی بھر لیا کرنا، لیکن اس قوم کا ایک سنگدل شحص نے جس کا نام ”قدار“ بتایا جاتا ہے، اونٹنی کو قتل کردیا، اس کے بعد اس قوم پر ایسا عذاب آیا یعنی سب فنا ہوگئے اور کوئی باقی نہیں بچا) ۞ اور اللہ کو اس کے کسی برے انجام کا کوئی خوف نہیں ہے۔۞
جب انسانوں کا کوئی لشکر کسی بستی میں تباہی مچائے تو اسے خوف بھی ہوتا ہے کہ کوئی اس سے انتقام نہ لے، ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو ہلاک کرتا ہے تو اسے کسی کے انتقام کا کوئی خوف نہیں ہوتا۔


LIKE AND SHERE

Post a Comment

0 Comments