سورۃ البلد 1سے 4
سورۃ البلد آیت نمبر 1سے 4
لَاۤ اُقۡسِمُ بِهٰذَا الۡبَلَدِۙ ۞ وَاَنۡتَ حِلٌّ ۢ بِهٰذَا الۡبَلَدِۙ ۞ وَوَالِدٍ وَّمَا وَلَدَ ۞ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِىۡ كَبَدٍؕ ۞
میں قسم کھاتا ہوں اس شہر کی۔ ۞ جبکہ (اے پیغمبر) تم اس شہر میں مقیم ہو ۞ اور (قسم کھاتا ہوں) باپ کی اور اس کی اولاد کی۔ ۞ کہ ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے۔
اس شہر سے مراد مکہ مکرمہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے خصوصی تقدس عطا فرمایا ہے اور اس میں حضور اقدس ﷺ مقیم ہونے کی بنا پر اس کے تقدس میں اور اضافہ ہوا ہے۔ کیونکہ آپ کی تشریف آوری کے لیے اس شہر کا انتخاب فرما کر اللہ تعالیٰ نے اس کی شان اور بڑھا دی ہے۔
وَوَالِدٍ وَّمَا وَلَدَ : والد سے مراد حضرت آدم ہیں اور چونکہ تمام انسان انہیں کی اولاد ہیں، اس لئے اس آیت میں تمام نوع انسانی کی قسم کھائی گئی ہے۔
یہ ہے وہ بات جو قسم کھاکر فرمائی گئی ہے، مطلب یہ ہے کہ دنیا میں انسان کو اس طرح پیدا کیا گیا ہے کہ وہ کسی نہ کسی مشقت میں لگارہتا ہے، چاہے کتنا بڑا حاکم ہو یا دولت مند شخص ہو اسے زندہ رہنے کے لئے مشقت اٹھانی ہی پڑتی ہے، لہذا اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ اسے دنیا میں کبھی کوئی محنت کرنی نہ پڑے تو یہ اس کی خام خیالی ہے، ایسا کبھی ممکن ہی نہیں ہے، ہاں مکمل راحت کی زندگی جنت کی زندگی ہے جو دنیا میں کی ہوئی محنت کے نتیجے میں ملتی ہے، ہدایت یہ دی گئی ہے کہ انسان کو دنیا میں جب کسی مشقت کا سامنا ہو تو اسے یہ حقیقت یاد کرنی چاہیے، خاص طور پر آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام کو مکہ مکرمہ میں جو تکلیفیں پیش آرہی تھیں اس آیت نے ان کو بھی تسلی دی ہے، اور یہ بات کہنے کے لئے اول تو شہر مکہ کی قسم کھائی ہے، شاید اس لئے کہ مکہ مکرمہ کو اگرچہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کا سب سے مقدس شہر بنایا ہے، لیکن وہ شہر بذات خود مشقتوں سے بنا، اور اس کے تقدس سے فائدہ اٹھانے کے لئے آج بھی مشقت کرنی پڑتی ہے، پھر خاص طور پر اس میں آنحضرت ﷺ کے مقیم ہونے کا حوالہ دینے میں شاید یہ اشارہ ہے کہ افضل ترین پیغمبر ﷺ ، افضل ترین شہر میں مقیم ہیں، لیکن مشقتیں ان کو بھی اٹھانی پڑرہی ہیں، پھر حضرت آدم ؑ اور ان کی ساری اولاد کی قسم کھانے سے اشارہ ہے کہ انسان کی پوری تاریخ پر غور کرجاؤیہ حقیقت ہر جگہ نظر آئے گی کہ انسان کی زندگی مشقتوں سے پُر رہی ہے۔
Like And Shere

0 Comments