سورۃ الفجر آیت ۱ سے ۱۴
سورۃ الفجر آیت نمبر 1سے14
وَالۡفَجۡرِۙ ۞ وَلَيَالٍ عَشۡرٍۙ ۞ وَّالشَّفۡعِ وَالۡوَتۡرِۙ ۞ وَالَّيۡلِ اِذَا يَسۡرِۚ ۞ هَلۡ فِىۡ ذٰلِكَ قَسَمٌ لِّذِىۡ حِجۡرٍؕ ۞ اَلَمۡ تَرَ كَيۡفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ ۞ اِرَمَ ذَاتِ الۡعِمَادِ ۞ الَّتِىۡ لَمۡ يُخۡلَقۡ مِثۡلُهَا فِى الۡبِلَادِ ۞ وَثَمُوۡدَ الَّذِيۡنَ جَابُوا الصَّخۡرَ بِالۡوَادِ ۞ وَفِرۡعَوۡنَ ذِى الۡاَوۡتَادِ ۞ الَّذِيۡنَ طَغَوۡا فِى الۡبِلَادِ ۞ فَاَكۡثَرُوۡا فِيۡهَا الۡفَسَادَ ۞ فَصَبَّ عَلَيۡهِمۡ رَبُّكَ سَوۡطَ عَذَابٍ ۞ اِنَّ رَبَّكَ لَبِالۡمِرۡصَادِؕ ۞
قسم ہے فجر کے وقت کی۔ ۞ اور دس راتوں کی ۞ اور جفت کی اور طاق کی۔ ۞ اور رات کی جب وہ چل کھڑی ہو۔ (کہ آخرت میں جزاء و سزا ضرور ہوگی) ۞ ایک عقل والے (کو یقین دلانے) کے لیے یہ قسمیں کافی ہیں کہ نہیں ؟ ۞ کیا تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے پروردگار نے عاد کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ ۞ اس اونچے ستونوں والی قوم ارم کے ساتھ ۞ جس کے برابر دنیا کے ملکوں میں کوئی اور قوم پیدا نہیں کی گئی ؟ ۞ اور ثمود کی اس قوم کے ساتھ کیا کیا جس نے و ادی میں پتھر کی چٹانوں کو تراش رکھا تھا ؟ ۞ اور میخوں والے فرعون کے ساتھ کیا کیا ؟ ۞ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے دنیا کے ملکوں میں سرکشی اختیار کرلی تھی۔ ۞ اور ان میں بہت فساد مچایا تھا۔ ۞ چنانچہ تمہارے پروردگار نے ان پر عذاب کا کوڑا برسا دیا۔ ۞ یقین رکھو تمہارا پروردگار سب کو نظر میں رکھے ہوئے ہے۔ ۞
وَالْفَجْرِ : فجر کا وقت دنیا کی ہر چیز میں ایک نیا انقلاب لے کر نمودار ہوتا ہے، اس لئے اس کی قسم کھائی گئی ہے، بعض مفسرین نے اس آیت سے خاص ذوالحجہ کی صبح مراد لی ہے، اور دس راتوں سے مراد ذوالحجہ کے مہینے کی پہلی دس راتیں ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے خصوصی تقدس عطا فرمایا ہے، اور اس میں عبادت کا بہت ثواب ہے۔
جفت سے مراد دس ذوالحجہ کا دن اور طاق سے مراد عرفہ کا دن ہے، جو نو ذوالحجہ کو آتا ہے ان ایام کی قسم کھانے سے ان کی اہمیت اور فضیلت کی طرف اشارہ ہے۔
واللیل اذا، یعنی جب رات رخصت ہونے لگے، ان تمام دنوں اور راتوں کا حوالہ شاید اس لئے دیا گیا ہے کہ عرب کے کافر لوگ بھی ان کو مقدس سمجھتے تھے، ظاہر ہے کہ یہ تقدس ان دنوں اور راتوں میں خود سے نہیں آگیا ؛ بلکہ اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے اس لئے یہ سارے دن رات اللہ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت پر دلالت کرتے ہیں، اور اس قدرت اور حکمت کا ایک مظاہرہ یہ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نیک اور بد کے ساتھ ایک جیسا سلوک نہ فرمائے، بلکہ نیک لوگوں کو انعام دے اور برے لوگوں کو سزا ؛ چنانچہ اس سورت میں انہی دونوں باتوں کو نہایت بلیغ انداز میں بیان فرمایا گیا ہے۔
”ارم“ قوم عاد کے جد اعلیٰ کا نام ہے، اس لیے قوم عاد کی جس شاخ کا یہاں ذکر ہے، اس کو عاد ارم کہا جاتا ہے۔ اور ان کو ستونوں والا کہنے کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ان کے قد و قامت اور ڈیل ڈول بہت زیادہ تھے اسی لیے آگے فرمایا گیا ہے کہ ان جیسے لوگ کہیں اور پیدا نہیں کیے گئے۔ اور بعض حضرات نے اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ انہوں نے اپنی تعمیرات میں بڑے بڑے ستون بنائے ہوئے تھے۔ ان کے پاس حضرت ہود ؑ کو پیغمبر بنا کر بھیجا گیا تھا
قوم ثمود کے پاس حضرت صالح ؑ کو پیغمبر بناکر بھیجا گیا تھا۔
فرعون کو میخوں والا اس لئے کہا گیا کہ وہ لوگوں کو سزا دینے کے لئے ان کے ہاتھ پاؤں میں میخیں گاڑ دیا کرتا تھا۔



0 Comments