مسعودہ بیگمMasuda Begum





 اسلاف وعلمائے امت کے مسعودہ بیگم کے بارے میں تاثرات




(۱)




شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ: جب مسعودہ کا میرے سامنے کوئی ذکر کرتا ہے تو مجھے ایسا لگتا ہے جیسے کوئی میرے بجھتے ہوئے ایمانی شعلے کو سلگا رہا ہے یا اسمیں کوئی پھونک مار رہا ہے۔"

(۲)

حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب صاحب رحمة اللہ علیہ (مہتم دار العلومدیوبند)

یہ بچی صحابیات کی یاد تازہ کرتی ہے اللہ نے اس کو اس زمانے میں خواتین کے لیے مجددہ بنایا کاش ہم سبق حاصل کر لیں ۔

(۳)

حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی رحمہ اللہ علیہ مجاہد آزادی ہند و ناظم اعلی جمعیت علماء ہند


ہم نے اس بچی کی قدر نہ کی جس نے ہماری سوئی ہوئی غیرت ایمانی پر ہتھوڑا مار کر جگا دیا، حفظ الرحمن اس بچی کا ذکر کر کےایمان تازہ دم ہوتا ہے۔"

(۴)

حضرت مولانا سعید احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ ( نائب صدر جمعیۃ علماء ہند ) : یہ بھی وہ شمع ہے جو خود تو جل گئی لیکن ہمارے قلوب کو منورکرگئی۔

(۵)

مؤرخ اسلام حضرت مولانا محمد میاں صاحب ناظم جمعیۃ علماء ہند)کاش مجھ کو اس بچی سے کچھ خاندانی نسبت ہوتی تو میں اللہ کے سامنے مسعودہ کو اپنا عمل بنا کر پیش کر دیتا کہ اے اللہ میں نے اس بچی کی تربیت کور ہے۔

(۶)

مفتی عتیق الرحمن صاحب ( دار المصنفین)

آج وہ نیک خاتون اللہ کی رحمت کے سایہ میں آسودہ ہے، لیکن وہ انسانی اور نسوانی زندگی کا ایک ایسا روشن اور سبق آموز مرقع اپنے پیچھے چھوڑ گئی جو ایک قومی سرمایہ ہے اور جس سے ہندوستانی عورتیں بہت کچھ سیکھ سکتی ہیں۔ ایسی بہادر عورتیں جن کی زندگی دوسروں کے لیے نمونہ عمل ہو، ہماری سوسائٹی میں بہت کم پیدا ہوتی ہیں ۔"


(۷)

عبد الوحید صدیقی (نئی دنیا): اس بچی نے اپنی ۲۲ سالہ زندگی میں شجاعت و بہادری کا ایسا سنہرا باب رقم کیا جس کو آنے والی نسلیں اپنے لیے مشعل راہ بنا سکیں ، کاش ہماری بچیاں اس کی زندگی کی کتاب کو نمونہ عمل سمجھ کرپڑھیں۔“


۸


عبد الباقی ( پیام وطن ): جس کی متوکلانہ نظر مادیت پر سے ہٹ کر اللہ رب العزت کی ذات پر ہو جاتی ہے تو اس کی زندگی مادیت کے حدود وقیود سے پاک ہو جاتی ہے اور جس کو لوگ قربانی سمجھتے ہیں وہ اس کی زندگی کا مطمح نظر بن جاتا ہے اس کی حصول کی خاطر وہ ہر چیز کو داؤ پرلگا دیتا ہے حتی کہ اپنی جان کو قربان کرنے میں بھی اس کو ذرا تامل نہیں ہوتا۔ یہ میری رائے ہے لیکن میرے پاس وہ الفاظ نہیں جن سے اس مجاہدہ کی زندگی کی ترجمانی ہو سکے ۔"

(۸)

 مولانا مسعوداحمد نانوتوی سابق ( ایم ، ایل۔اے) اجین


نانوتہ میں خاندان صدیقی کی وہ مجاہد بیٹی جس کے عزم و حوصلہ اور جرات و غیرت کے سامنے ظالم کے ظلم کی رسی میں ! آگ لگئی کہ اس میں بل بھی باقی نہ رہا اور ہم کو جاء الحق وزحق الباطل اس میں بھی نہ رہ جا ایسی کا عملی درس دے گئی کاش ہم اس پر عملی مشق کرنے کی جراتکرلیں۔


مسلمان کے یہاں ہر چیز کی اصل اساس اللہ اور اس کے رسول کی محبت ہے ان کی راہ میں جو بھی حائل ہو اس کو خس و خاشاک کی طرح ہٹا دو


(۹)

قاری محمد میاں (دہلی):

دوخواتین پوری اسلامی تاریخ میں ایسی گذری ہیں جنھوں نے مجھ کو سب سے زیادہ متاثر کیا لیکن حضرت خنساء بنت تماضر رضی اللہ عنہا اور دوسری قوم کی بیٹی مجاہدہ ملت مسعودہ بیگم بنت وہاج احمد صاحب شہید رحمۃ اللہ علیہ دونوں ہی نے اولاد کو اسلام کی خاطر قربان کیا۔ )الله(

۱۰

مولانا محمد سمیع قاسمی ( کتب خانہ عزیزیہ ) 


کوئی بھی شخص جس نے مسعودہ کے بارے میں سنا ہو گا اس کو یقین نہیں آئے گا یہ ایسا عفت و حیا، جرات و ہمت اور صبر د استقلال کا یہ عظیم کارنامہ ایک ایسی بچی نے دیا جس کی کل عمر ہی ۲۲ سال ہوئی اور ۱۳ سال سے ۲۲ سال کے درمیان میں یہ عظیم الشان کارنامہ انجام دیا۔

افسوس ہوتا ہے کہ ایک منھی سی بچی نے صبر و استقلال اور شجاعت و بہادری کا ایک راستہ دکھایا لیکن ہم اس پر بھی چل نہ سکے۔"


۱۱

عبد عبد اللہ فاروقی ( خاتون مشرق): مسعودہ کی زندگی کا لحہ لمحہ درس عمل ہے اس سے سبق حاصل کرنے کے لیے دیدہ عبرت چاہیے۔“ 


۱۲

مولانا محمد عثمان دیوبندی، استاذ دار العلوم دیوبند ( سابق چیئر مین دیوبند

نواسہ حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ 


میں اس باکردار بچی کے سامنے اپنی عقیدت کی پلکوں کو جھکا کر سلام کرتا ہوں اور اس کی غیرت و خودداری کو اپنی زندگی کے لیے مشعل راہ بناتا ہوں ۔

۱۳


مفتی مولانا محمود احمد (صدر جمعیۃ علماء صوبہ مدھیہ پردیش بھارت ): لوگوں نے اس کو قوم کی بیٹی کا خطاب دیا میں اس کو اسلام کی عظیم بیٹی کا خطاب دیتا ہوں۔“

Post a Comment

0 Comments