15August



*سونے کی چڑیا سے زنجیر شکنی تک*

✍🏻:ابن افضل قاسمی چندرپور



برصغیر کی خاک اگرچہ دنیا کے نقشے پر ایک علاقہ ہے، لیکن یہ اپنی تاریخ میں ایک درخشندہ ستارہ بھی ہے۔ عجمی ممالک میں اس خطے کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس ملک کا تذکرہ آقائے دو جہاں ﷺ کی زبانِ اقدس پر جاری ہوا ہے (نسائی)، اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ خطۂ ارض روزِ اول سے خدا کی نظرِ کرم کا مظہر رہا ہے۔ چنانچہ وصالِ نبوی کے بعد عہدِ فاروقی میں عرب تاجروں کی کشتیاں مالابار کے ساحل سے ٹکرائیں، اور یوں توحید کا پیغام ہمارے اس وطن میں داخل ہوا۔


لیکن ہند میں اسلام اپنی شان و شوکت کے ساتھ اس وقت آیا، جب 712ء (93ھ) میں محمد بن قاسم کے قافلے نے سندھ کے دیبل کی بندرگاہ پر دستک دی، اور سندھ کے حکمران راجہ داہر کی ظالمانہ سلطنت کو للکارتے ہوئے ہندوستان میں پہلی بار اسلام کا پرچم بلند کیا۔ اس طرح اس قافلے سے لے کر دہلی سلطنت کے ابتدائی نقش تک، اور وہاں سے مغلیہ سلطنت کے عروجِ ثریا (1526-1707ء) تک، اس خطے نے اپنی وہ آبیاری اور فنکارانہ شان دیکھی جس نے اس ملک کو "سونے کی چڑیا" کا خطاب دلوایا۔  


مگر پھر یہ شگفتہ، مہکتا،شاداب پھول سفید فام قوم کی نظرِ بد کا نشانہ بنا۔ اور سفید فام سوداگروں کا ایک جتھا، ایسٹ انڈیا کمپنی کے پرچم تلے، تجارت کے بہانے ہندوستان کے ساحل پر اترا۔ یہ 1600ء کی دہائی کا آغاز تھا، مگر ان کی نظر صرف منافع پر نہ تھی؛ بلکہ یہ اس وقت کی "سونے کی چڑیا" کہلائے جانے والے ایک خود مختار ملک کی دولت کو لوٹنے اور اس کی سیاسی تقدیر اپنے ہاتھ میں لینے کا منصوبہ لے کر آئے تھے۔ پہلے تجارتی چوکیاں، پھر مقامی حکمرانوں سے سازباز، اور بالآخر 1757ء میں پلاسی کے میدان میں پہلے شہیدِ آزادی سراج الدولہ کے ساتھ جنگ میں میر جعفر کی غداری نے بنگال کی دولت پر ان کا قبضہ مضبوط کر دیا۔ یوں تجارت کا لباس پہنے ہوئے استعمار نے اپنے پنجے گاڑنا شروع کر دیے۔  


مگر ہندوستانی روح، جو صدیوں سے آزادی کی پیکر تھی، خاموش بیٹھنے والی نہ تھی۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (1703-1762ء) نے پہلی بار علمی اور فکری سطح پر استعمار کی حقیقت کو بے نقاب کیا اور امت کو بیدار کیا۔ ان کے افکار کی مشعل ان کے جانشینوں شاہ عبدالعزیز (1746-1824ء) اور شاہ اسماعیل شہید (1779-1831ء) نے سنبھالی، جنہوں نے ہندوستان کے دارالحرب ہونے اور جہاد کا فتویٰ دے کر عملی مزاحمت کی راہ ہموار کی۔ بنگال کے نواب سراج الدولہ (1733-1757ء) نے پلاسی کے میدان میں انگریز کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہونے کی پہلی بڑی مثال قائم کی، اگرچہ میر جعفر کی غداری کے سبب انہیں شکست کھانی پڑی، مگر یہ شکست آزادی کی راہ میں بغاوت کا ایک بیج بو گئی۔ اسی بیج سے شیرِ میسور ٹیپو سلطان شہید (1750-1799ء) انگریزوں کے لیے ایک آہنی دیوار بن کر ابھرے، جنہوں نے اپنی آخری سانس تک "شیرِ خدا" کا لقب سچ کر دکھایا۔ ان کا نعرہ *"گیدڑ کی ایک سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے"* آج بھی حریتِ حیات کی علامت ہے۔ ان کی شہادت (1799ء) نے ہندوستانی مزاحمت کو وقتی طور پر ماند ضرور کر دیا، مگر یہ بالکل ناکارہ نہ ہوئی۔  


یہ چنگاری سلگتی رہی، یہاں تک کہ 1857ء کا عظیم انقلاب بپا ہوا۔ یہ محض فوجی بغاوت نہ تھی، بلکہ ہندوستان کی پہلی اجتماعی جنگِ آزادی تھی، جس میں دہلی سے لکھنؤ تک، کانپور سے جہانگیرآباد (بیجاپور) تک، ہندو، مسلم، سکھ، سب نے مل کر انگریز سامراج کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا۔

 مگر افسوس! غداری، جدید ہتھیاروں کی کمی، اور مرکزیت کے فقدان نے اس مقدس تحریک کو ناکام بنا دیا۔ اور پھر 1857ء کی ناکامی کے بعد ہندوستان مکمل طور پر انگریزوں کی زیرِ اقتدار آگیا۔ 20 ستمبر 1857ء کو لال قلعہ کا علامتی تاج وتخت بھی چھین لیا گیا، اور مغلیہ حکومت کا آخری چشم و چراغ بہادر شاہ ظفر کو جلاوطن کرکے رنگوں (برما) میں قید کر دیا گیا۔ اس طرح انگریزوں کے خلاف سوسالہ جدوجہد نے دم توڑ دیا، اور دہلی کی گلیوں میں بہائے گئے خون کے دریا، قلعہ معلیٰ کے پھانسی کے تختوں نے ملک کو گہرے سوگ میں ڈبو دیا۔  


مگر ہر زوال اپنے اندر ایک بیداری کا بیج بھی رکھتا ہے۔ اہلِ دانش ناکامی سے تحریک پا کر، اور شکست کے ملبے میں دبے ہوئے تجربات سے فائدہ اٹھا کر کامیابی کی طرف قدم بڑھاتے ہیں۔ چنانچہ چند ہی دہائیوں بعد، علمائے حق کی قربانیوں نے پھر چنگاری بھڑکائی، اور 30 مئی 1866ء بروز جمعرات کو دیوبند کی مبارک سرزمین پر مسجدِ چھتہ میں انار کے درخت کے نیچے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی گئی۔

 جو محض ایک مدرسہ نہیں بلکہ استعمار شکنی کا ایک قلعہ تھا۔ اس درسگاہ کے سب سے اولین فرزند مولانا محمود حسن تھے جو بعد میں شیخ الہند کی شکل میں نمودار ہوئے، جن کی تحریکِ ریشمی رومال (1914ء) 1857ء کی جنگ کے بعد ہندوستان کی آزادی کے لیے تیسری سب سے بڑی اور منظم تحریک کے حوالے سے مشہور ہے۔ اس کے متعلق مشہور حقیقت ہے کہ "اگر یہ تحریک کامیاب ہو جاتی تو آج ہندوستان کا سیاسی اور جغرافیائی نقشہ کچھ اور ہوتا"۔ مگر صد حیف! کہ کچھ اپنوں ہی کی نادانی نے اس تحریک کو سبوتاژ کر دیا۔ اور پھر 1919ء میں جمعیۃ علمائے ہند کی تشکیل عمل میں آئی، اور انہی بوریہ نشیں علماء نے تحریکِ خلافت (1919-1924ء) کو رہنمائی بخشی، اور 1942ء کی تحریکِ آزادی ہند (بھارت چھوڑو) میں جیلوں کی کوٹھڑیوں میں اذیتیں سہیں۔ مولانا حسین احمد مدنی، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی جیسے جید علماء نے قلم اور عمل دونوں سے میدانِ جہاد سنبھالا۔  


یہ ایک طویل، خونچکاں، مگر پرعزم جدوجہد تھی، جس میں لاکھوں شہیدوں، مجاہدوں، قیدیوں، اور جلاوطنوں نے اپنی زندگیاں آزادی کے نام قربان کر دیں۔ آخرکار انہیں کے عرق و خون سے سینچی گئی سرزمین پر وہ مقدس لمحہ آیا، جب 15 اگست 1947ء کی صبح آزادی کا سورج اس شان سے طلوع ہوا کہ گویا صدیوں کی تاریکی نے سجدہ ریز ہو کر روشنی کے تاج کو سربلند دیکھ لیا۔ یہ وہ دولتِ عظمیٰ تھی جس کے خواب سجا کر ہزاروں اہلِ وطن پیوندِ خاک ہو گئے۔ سارے ہندوستان کا سینہ فخر سے چوڑا ہو گیا، مگر اسی لمحے ایک دل دہلا دینے والا سانحہ رونما ہوا۔ کچھ ہاتھوں نے اس مقدس یکجہتی کے تاج میں ایک شگاف ڈال دیا۔ الگ وطن کے مطالبے نے اُس متحدہ ہندوستان کے خواب کو چکنا چور کر دیا، اور ہندو مسلم اتحاد پارہ پارہ ہو گیا:  

> *دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے*  

> *اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے*  


لیگ کی ناعاقبت اندیش قیادت کی شاطرانہ چالوں کی بدولت جمعیۃ علمائے ہند کی تقسیمِ ہند کی مخالفت کے نعرے اور مدنی فارمولے ٹھکرا دیے گئے، اور مولانا آزاد اور شیخ الاسلام کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوئی۔ آخرکار انسانی لاشوں پر اس ملک کی تعمیر ہوئی، اور تقسیم کے بعد آبادی کے تبادلے میں خاموش آسمان کے نیچے، زمین کے سخت جگر پر وہ سب کچھ ہوا جو ہند کی آنکھوں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ جس کے خونی دھبے تاریخِ پاک کی پیشانی پر ہمیشہ کلنک کا ٹیکہ بنے رہیں گے۔  


ان سب کے باوجود اس نومولود ملک میں "اسلامی حکومت" کے قیام کا دکھایا جانے والا سنہرا خواب محض سراب ثابت ہوا، اور جن اصولوں اور خوابوں کی بنا پر الگ وطن کے مطالبے کا نشہ سوار تھا، وہ آج تک نہ صرف ادھورے ہیں بلکہ پامال ہو چکے ہیں۔  


مگر اس المیے کے دھندلکے میں بھی، چار سے ساڑھے چار کروڑ کے قریب مسلمانوں نے اسی زمین کو اپنا مسکنِ ابدی قرار دے لیا۔ ان کے دل مسلم حکمرانوں کے تاریخی ورثے، دہلی کی گلیوں، آگرہ کے تاج، حیدرآباد کی محرابوں سے اس قدر پیار کرتے تھے کہ انہوں نے ہندوستانی ہونے کو اپنا اعزاز بنایا۔ یہ وہ اہلِ دل تھے جنہوں نے اپنا دل اس سرزمین کے سپرد کیا، اس کی مٹی میں اپنی نسلیں پروان چڑھانے کا عہد کیا، اور اس کے آئین کے سامنے سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے خود کو ہندوستان کا مستقل اور پُرعزم شہری قرار دیا۔

 یہ فیصلہ محض رہائش کا نہ تھا؛ بلکہ سرزمینِ ہند سے عشق کی وہ جاوداں داستان تھی جو تقسیمِ ہند کے وقت شیخ الاسلام کے دیوبند کی جامع مسجد کے منبر پر تاریخی خطاب میں ایک ولولہ بن کر ابھری تھی، اور مولانا آزاد کے دہلی کی جامع مسجد کے خطباتِ حریت میں شعلہ بن کر بھڑکی تھی۔  


لیکن آج کچھ یکسر احسان فراموش،_جنہیں آزادی پھولوں کے گلدستے کی شکل میں مل گئی_ انہیں نہ ہماری قربانیاں یاد رہیں نہ ہماری خدمات۔ وہ آج مسلمانوں کو آزادی کے متعلق طعنہ زنی کرتے ہوئے تاریخ کا مذاق اڑاتے نہیں تھکتے۔  


ہماری قربانیوں کا یہ سرمایۂ حریت کسی طعن وتشنیع کا  متحمل نہیں۔ یہ ملک مسلمانوں کے خون کی سرخی سے سرخ رو ہوا ہے، اور ہم نے اس ملک کی قسمت جگانے میں جتنا خون بہایا ہے، اتنا پسینہ بھی دوسری قوموں نے مل کر نہیں بہایا۔ یہ بھولنے کی غلطی کبھی مت کرنا کہ: ہم مظلوم سہی، لیکن مجبور نہیں!

ہماری رگوں میں آج بھی وہی آتشِ حریت دہک رہی ہے جو سید احمد شہید کے سینے، ٹیپو کی تلوار، اور ابوالکلام آزاد کے کلام میں تھی۔


> *ہمارے سر کی پھٹی ٹوپیوں پہ طنز نہ کر*

> *ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں*

Post a Comment

0 Comments