سورۃ الفجر آیت 21سے30

 سورۃ الفجر آیت 21سے30




سورۃ الفجر آیت نمبر 21سے30

كَلَّاۤ اِذَا دُكَّتِ الۡاَرۡضُ دَكًّا دَكًّا ۞ وَّجَآءَ رَبُّكَ وَالۡمَلَكُ صَفًّا صَفًّا ۞ وَجِاىْٓءَ يَوۡمَئِذٍۢ بِجَهَنَّمَ ۙ‌ يَوۡمَئِذٍ يَّتَذَكَّرُ الۡاِنۡسَانُ وَاَنّٰى لَـهُ الذِّكۡرٰىؕ ۞ يَقُوۡلُ يٰلَيۡتَنِىۡ قَدَّمۡتُ لِحَـيَاتِى‌ۚ ۞ فَيَوۡمَئِذٍ لَّا يُعَذِّبُ عَذَابَهٗۤ اَحَدٌ ۞ وَّلَا يُوۡثِقُ وَثَاقَهٗۤ اَحَدٌ ۞ يٰۤاَيَّتُهَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّةُ ۞ ارۡجِعِىۡۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرۡضِيَّةً‌ ۞ فَادۡخُلِىۡ فِىۡ عِبٰدِىۙ ۞ وَادۡخُلِىۡ جَنَّتِى۞

ہرگز ایسا نہیں چاہیے۔ جب زمین کو کوٹ کوٹ کر ریزہ ریزہ کردیا جائے گا۔ ۞ اور تمہارا پروردگار اور قطاریں باندھے ہوئے فرشتے (میدان حشر میں) آئیں گے۔ ۞ اور اس دن جہنم کو سامنے لایا جائے گا، تو اس دن انسان کو سمجھ آئے گی اور اس وقت سمجھ آنے کا موقع کہاں ہوگا ؟ ۞ وہ کہے گا کہ : کاش ! میں نے اپنی اس زندگی کے لیے کچھ آگے بھیج دیا ہوتا۔ ۞ پھر اس دن اللہ کے برابر کوئی عذاب دینے والا نہیں ہوگا۔ ۞ اور نہ اس کے جکڑنے کی طرح کوئی جکڑنے والا ہوگا۔ ۞ (البتہ نیک لوگوں سے کہا جائے گا کہ) اے وہ جان جو (اللہ کی اطاعت میں) چین پاچکی ہے۔ ۞ اپنے پروردگار کی طرف اس طرح لوٹ کر آجا کہ تو اس سے راضی ہو، اور وہ تجھ سے راضی۔ ۞ اور شامل ہوجا میرے (نیک) بندوں میں۔ ۞ اور داخل ہوجا میری جنت میں۔۞


ہرگز ایسا نہیں (جیسا تم سمجھتے ہو کہ ان اعمال پر عذاب نہ ہوگا، ضرور ہوگا، آگے جزاء و سزا کا وقت بتلاتے ہیں جس میں ان کو عذاب اور اہل اطاعت کو اجر وثواب ملے گا پس ارشاد ہے کہ) جس وقت زمین کے (کے بلند اجزاء پہاڑ وغیرہ) کو توڑ توڑ کر (اور) ریزہ کر کے زمین کو برابر کردیا جاوے گا (کقولہ تعالیٰ لا تری فیھا عوجاولا امتا سورة طہ) اور آپ کا پروردگار اور جوق جوق فرشتے (میدان محشر میں) آویں گے (یہ حساب کے وقت ہوگا اور اللہ تعالیٰ کا آنا متشابہات میں سے ہے جس کی حقیقت کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا) اور اس روز جہنم کو لایا جاوے گا اس روز انسان کو سمجھ آوے گی اور اب سمجھ آنیکا موقع کہاں رہا (یعنی اب سمجھ آنے سے کیا فائدہ ہوسکتا ہے کیونکہ وہ دار الجزاء ہے دارالعمل نہیں۔ آگے سمجھ آنے کے بعد جو اس کا قول ہوگا اس کا بیان ہے کہ وہ) کہے گا کاش میں اس زندگی (اخروی) کے لئے کوئی (نیک) عمل آگے بھیج لیتا پس اس روز نہ تو خدا کے عذاب کی برابر کوئی عذاب دینے والا نکلے گا اور نہ اس کے جکڑنے کے برابر کوئی جکڑنے والا نکلے گا (یعنی ایسی سخت سزا اور قید کرے گا کہ دنیا میں کبھی کسی نے کسی کو نہ اتنی سخت سزا دی ہوگی نہ ایسی سخت قید کی ہوگی یہ سزا تو ان لوگوں کی ہوگی جو اعمال عذاب کے مرتکب ہوئے اور جو اللہ کے فرمانبردار تھے ان کو ارشاد ہوگا کہ) اے اطمینان والی روح (یعنی جس کو امر حق میں یقین واذعان تھا اور کسی طرح کا شک و انکار نہ تھا اور تعبیر روح سے بااعتبار جزء اشرف کے ہے) تو اپنے پروردگار (کے جوار رحمت) کی طرف چل اس طرح سے کہ تو اس سے خوش اور وہ تجھ سے خوش، پھر(ادھر چل کر) تو میرے (خاص) بندوں میں شامل ہوجا (یہ بھی نعمت روحانی ہے کہ انس اور وہ تجھ سے خوش، پھر (ادھر چل کر) تو میرے (خاص) بندوں میں شامل ہوجا (یہ بھی نعمت روحانی ہے کہ انس کے لئے احباب سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں) اور میری جنت میں داخل ہوجا (لفظ مطمئنہ میں ان لوگوں کے اعمال حسنہ کی طرف اشارہ ہوگیا اور اعمال حسنہ کی طرف اشارہ اور اعمال عذاب کی تفصیل بیان فرمانا شاید اس لئے ہے کہ زیادہ مقصود یہاں اہل مکہ کو سنانا ہے اور اس وقت وہاں ایسے اعمال کے مرتکب زیادہ تھے)



Post a Comment

0 Comments