سورۃ الأعلى
آیت نمبر 1سے19
سَبِّحِ اسۡمَ رَبِّكَ الۡاَعۡلَىۙ ۞ الَّذِىۡ خَلَقَ فَسَوّٰى ۞ وَالَّذِىۡ قَدَّرَ فَهَدٰى ۞ وَالَّذِىۡۤ اَخۡرَجَ الۡمَرۡعٰى ۞ فَجَعَلَهٗ غُثَآءً اَحۡوٰىؕ ۞ سَنُقۡرِئُكَ فَلَا تَنۡسٰٓىۙ ۞ اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُؕ اِنَّهٗ يَعۡلَمُ الۡجَهۡرَ وَمَا يَخۡفٰىؕ ۞ وَنُيَسِّرُكَ لِلۡيُسۡرٰى ۞ فَذَكِّرۡ اِنۡ نَّفَعَتِ الذِّكۡرٰىؕ ۞ سَيَذَّكَّرُ مَنۡ يَّخۡشٰىۙ ۞ وَيَتَجَنَّبُهَا الۡاَشۡقَىۙ ۞ الَّذِىۡ يَصۡلَى النَّارَ الۡكُبۡرٰىۚ ۞ ثُمَّ لَا يَمُوۡتُ فِيۡهَا وَلَا يَحۡيٰىؕ ۞ قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ تَزَكّٰىۙ ۞ وَذَكَرَ اسۡمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰى ۞ بَلۡ تُؤۡثِرُوۡنَ الۡحَيٰوةَ الدُّنۡيَا ۞ وَالۡاٰخِرَةُ خَيۡرٌ وَّ اَبۡقٰىؕ ۞ اِنَّ هٰذَا لَفِى الصُّحُفِ الۡاُوۡلٰىۙ ۞ صُحُفِ اِبۡرٰهِيۡمَ وَمُوۡسٰى ۞
اپنے پروردگار کے نام کی تسبیح کرو جس کی شان سب سے اونچی ہے۔ ۞ جس نے سب کچھ پیدا کیا اور ٹھیک ٹھیک بنایا۔ ۞ اور جس نے ہر چیز کو ایک خاص انداز دیا، پھر راستہ بتایا۔ ۞ اور جس نے سبز چارہ (زمین سے) نکالا۔ ۞ پھر اسے کالے رنگ کا کوڑا بنادیا۔ ۞ (اے پیغمبر) ہم تمہیں پڑھائیں گے پھر تم بھولو گے نہیں۔ ۞ سوائے اس کے جسے اللہ چاہے۔ یقین رکھو وہ کھلی ہوئی چیزوں کو بھی جانتا ہے اور ان چیزوں کو بھی جو چھپی ہوئی ہیں۔ ۞ اور ہم تمہیں آسان شریعت (پر چلنے کے لیے) سہولت دیں گے۔ ۞ لہذا تم نصیحت کیے جاؤ، اگر نصیحت کا فائدہ ہو۔ ۞ جس کے دل میں اللہ کا خوف ہوگا، وہ نصیحت مانے گا۔ ۞ اور اس سے دور وہ رہے گا جو بڑا بدبخت ہوگا۔ ۞ جو سب سے بڑی آگ میں داخل ہوگا۔ ۞ پھر اس آگ میں نہ مرے گا اور نہ جیے گا۔ ۞ فلاح اس نے پائی ہے جس نے پاکیزگی اختیار کی۔ ۞ اور اپنے پروردگار کا نام لیا، اور نماز پڑھی۔ ۞ لیکن تم لوگ دنیوی زندگی کو مقدم رکھتے ہو۔ ۞ حالانکہ آخرت کہیں زیادہ بہتر اور کہیں زیادہ پائیدار ہے۔ ۞ یہ بات یقینا پچھلے (آسمانی) صحیفوں میں بھی درج ہے۔ ۞ ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں۔۞
(اے پیغمبر ﷺ آپ (اور جو مومن آپ کے ساتھ ہیں) اپنے پروردگار عالیشان کے نام کی تسبیح (و تقدیس) کیجئے جس نے (ہر شی کو) بنایا پھر (اس کو) ٹھیک بنایا (یعنی ہر چیز کو مناسب طور پر بنایا) اور جس نے (جانداروں کے لئے ان کے مناسب چیزوں کو) تجویز کیا پھر (ان جانداروں کو ان چیزوں کی طرف) راہ بتلائی (یعنی ان کی طبیعتوں میں ان اشیاء کا تقاضا پیدا کردیا) اور جس نے (سبز خوشنما) چارہ (زمین سے) نکالا پھر اس کو سیاہ کوڑا کردیا (اول عام تصرفات مذکور ہیں، پھر حیوانات کے متعلق پھر نباتات کے متعلق مطلب یہ ہے کہ طاعات کے ذریعہ آخرت کی تیاری کرنا چاہئے جہاں اعمال پر جزا و سزا ہونے والی ہے اور اسی اطاعت کا طریقہ بتلانے کے لئے ہم نے قرآن نازل کیا ہے اور آپ کو اس کی تبلیغ کے لئے مامور کیا ہے سو اس قرآن کی نسبت ہم وعدہ کرتے ہیں کہ) ہم (جتنا) قرآن (نازل کرتے جاویں گے) آپ کو پڑھادیا کریں گے (یعنی یاد کرادیا کریں گے) پھر آپ (اس میں سے کوئی جز) نہیں بھولیں گے مگر جسقدر (بھلانا) اللہ کو منظور ہو (کہ نسخ کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کما قال تعالیٰ ما ننسخ من ایة اوننسھا سو وہ البتہ آپ کے اور سب کے ذہنوں سے فراموش کردیا جاوے گا، اور یہ یاد رکھانا اور فراموش کردینا سب قرین حکمت ہوگا کیونکہ) وہ ہر ظاہر اور مخفی کو جانتا ہے (اس لئے اس سے کسی چیز کی مصلحت مخفی نہیں، تو جب کسی چیز کا محفوظ رکھنا مصلحت ہوتا ہے محفوظ رکھتے ہیں، اور جب بھلادینا مصلحت ہوتا ہے تو بھلا دیتے ہیں) اور (جیسا ہم آپ کے لئے قرآن کا یاد ہونا آسان کردیں گے اسی طرح) ہم اس آسان (شریعت کے ہر حکم پر چلنے) کے لئے آپ کو سہولت دیدیں گے (یعنی سمجھنا بھی آسان ہوگا اور عمل بھی آسان ہوگا اور تبلیغ بھی آسان ہوجاوے گی اور مزاحمتوں کو دفع کردیں گے، اور شریعت کی صفت یسری لانا بطور مدح کے ہے یا اسلئے کہ وہ سبب ہے یسر کا، اور جب ہم آپ کے لئے وحی کے متعلق ہر کام آسان کردینے کا وعدہ کرتے ہیں) تو آپ (جس طرح خود تسبیح و تقدیس کرتے ہیں اس طرح دوسروں کو بھی) نصیحت کیا کیجئے اگر نصیحت کرنا مفید ہوتا ہو (مگر جیسا کہ ظاہر اور معلوم ہے کہ نصیحت اپنی ذات میں ہمیشہ مفید ہی ہوتی ہے کما قال تعالیٰ فان الذکری تنفع المومنین حاصل یہ ہوا کہ جب نصیحت نفع کی چیز ہے تو آپ نصیحت کرنے کا اہتمام کریں، مگر باوجود اسکے کہ نصیحت اپنی ذات میں نافع و مفید ہے اس سے یہ نہ سمجھئے کہ وہ سب ہی کے لئے مفید ہوگی اور سب ہی اس کو مان لیں گے بلکہ) وہی شخص نصیحت مانتا ہے جو (خدا سے) ڈرتا ہے اور جو سخت بدنصیب ہے وہ اس سے گریز کرتا ہے جو (آخر کار) بڑی آگ میں (یعنی آتش دوزخ میں جو دنیا کی سب آگوں سے بڑی ہے) داخل ہوگا پھر (اس سے بڑھ کر یہ کہ) نہ اس میں مرہی جاوے گا اور نہ (آرام کی زندگی) جئے گا (یعن یجس جگہ نصیحت قبول کرنے کی شرط موجود نہیں ہوتی وہاں اگرچہ اس کا اثر ظاہر نہ ہو مگر نصیحت فی نفسہ نافع ومفید ہی ہے، اور آپ کے ذمہ اسکے واجب ہونے کے لئے یہی کافی ہے۔ خلاصہ اول سورت سے یہاں تک کا یہ ہوا کہ آپ اپنی بھی تکمیل کیئجے اور دوسروں کو بھی اس کی تبلیغ کیجئے کہ ہم آپ کے معاون ہیں۔ آگے اس کی تفصیل ہے کہ اللہ سے ڈرنے والے نصیحت سے فائدہ اٹھاتے ہیں) بامراد ہوا جو شخص (قرآن سنکر عقائد باطلہ اور اخلاق ذیلہ سے) پاک ہوگیا اور اپنے رب کا نام لیتا اور نماز پڑھتا رہا (مگر اے منکرو تم قرآن سن کر اس کو نہیں مانتے اور آخرت کا سامان نہیں کرتے) بلکہ تم دنیوی زندگی کو مقدم رکھتے ہو حالانکہ آخرت (دنیا سے) بدر جہابہتر اور پائیدار ہے (اور یہ مضمون صرف قرآن ہی کا دعویٰ نہیں بلکہ) یہ مضمون اگلے صحیفوں میں بھی ہے، یعنی ابراہیم و موسیٰ (علیہما السلام) کے صحیفوں میں (روح المعافی میں عبدبن حمید کی روایت سے حدیث مرفوع مذکور ہے کہ ابراہیم ؑ پر دس صحیفے نازل ہوئے اور موسیٰ ؑ پر تورات کے نزول سے پہلے دس صحیفے نازل ہوئے)

0 Comments