تفسیر سورۃ البروج

سورۃالبروج مکمل


تفسیر


 

شان نزول۔ اس سورت میں ایک قصہ کا اجمالاً ذکر ہے جو صحیح مسلم میں مذکورہ ہے۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کوئی کافر بادشاہ تھا اس کے پاس ایک کاہن تھا (کاہن اس کو کہا جاتا ہے جو شیاطین کے ذریعہ یا نجوم کے آثار کے ذریعہ کچھ مستقبل کی غیبی خبریں معلوم کر کے لوگوں کو بتائے) اس کا ہن نے بادشاہ سے کہا کہ مجھ کو ایک ہوشیار لڑکا دیا جاوے تو اس کو اپنا علم سکھا دوں، چناچہ ایک لڑکا تجویز کیا گیا، اس کے راستے میں ایک راہب یعنی عیسائی پادری رہتا تھا اور اس زمانے میں دین عیسیٰ ؑ ہی دین حق تھا اور یہ راہب اسی پر قائم عبادت گزار تھا وہ لڑکا اس کے پاس آنے جانے لگا اور خفیہ مسلمان ہوگیا، ایک بار اس لڑکے نے دیکھا کہ کسی شیر نے راستہ روک رکھا ہے اور خلق خدا پریشان ہے تو اس نے ایک پتھر ہاتھ میں لے کر دعا کی کہ اے اللہ اگر راہب کا دین سچا ہے تو یہ جانور میرے پتھر سے مارا جاوے اور اگر کاہن سچا ہے تو نہ مارا جاوے اور یہ کہہ کر وہ پتھر مارا تو شیر کو لگا اور وہ ہلاک ہوگیا، لوگوں میں شور ہوگیا کہ اس لڑکے کو کوئی عجیب علم آتا ہے کسی اندھے نے سنا آ کر درخواست کی میری آنکھیں اچھی ہوجاویں، لڑکے نے کہا بشرطیکہ تو مسلمان ہوجاوے چناچہ اس نے قبول کیا، لڑکے نے دعا کی وہ اچھا ہوگیا اور مسلمان ہوگیا، بادشاہ کو یہ خبریں پہنچیں تو اس راہب کو اور لڑکے کو اور اس نابینا کو گرفتار کر کے بلایا، اس نے راہب اور اعمی کو تو قتل کردیا اور لڑکے کے لئے حکم دیا کہ پہاڑ کے اوپر لیجا کر گرا دیا جاوے مگر جو لوگ اس کو لے گئے تھے وہ خود گر کر ہلاک ہوگئے اور لڑکا صحیح سالم چلا آیا۔ پھر بادشاہ نے سمندر میں غرق کرنے کا حکم دیا وہ اس سے بھی بچ گیا اور جو لوگ اس کو لے گئے تھے وہ سب ڈوب گئے پھر خود لڑکے نے بادشاہ سے کہا مجھ کو بسم اللہ کہہ کہ تیر مارو تو میں مر جاؤں گا چناچہ ایسا ہی کیا گیا اور لڑکا مر گیا، پس اس واقعہ عجیبہ کو دیکھ کر یک لخت عام لوگوں کی زبان سے نعرہ بلند ہوا کہ ہم سب اللہ پر ایمان لاتے ہیں، بادشاہ بڑا پریشان ہوا اور ارکان سلطانت کے مشورے سے بڑی بڑی خندقیں آگ سے بھروا کر اشتہار دیا کہ جو شخص اسلام سے نہ پھریگا اس کو آگ میں جلا دینگے چناچہ بہت آدمی جلائے گئے، اس صورت میں ان پر غضب الٰہی نازل ہونے کا بیان قسم کے ساتھ فرمایا ہے) قسم ہے برجوں والے آسمان کی (مراد برجوں سے بڑے بڑے ستارے ہیں، کذا فی الدرالمنشور مرفوعا) اور قسم ہے وعدہ کئے ہوئے دن کی (یعنی قیامت کے دن کی) اور قسم ہے حاضر ہونے والے (دن) کی، اور قسم ہے اس (دن) کی جس میں لوگوں کی حاضری ہوتی ہے (حدیث ترمذی میں مرفوعاً ہے کہ یوم موعود قیامت کا دن ہے اور شاہد جمعہ کا دن ہے اور مشہور عرفہ کا دن ہے اور ایک دن کو شاہد اور دوسرے کو مشہور شاید اس لئے فرمایا کہ یوم جمعہ میں تو سب اپنی اپنی جگ رہتے ہیں تو گویا وہ دن خود آتا ہے اور یوم عرفہ میں حجاج اپنے اپنے مقامات سے سفر کر کے عرفات میں اس یوم کے قصد سے جمع ہوجاتے ہیں تو گویا وہ دن مقصود و مشہود اور دوسرے لوگ حاضری کا قصد کرنیوالے ہیں آگے جواب قسم ہے) کہ خندق والے یعنی بہت سے ایندھن کی آگ والے ملعون ہوئے جس وقت وہ لوگ اس (آگ) کے آس پاس بیٹھے ہوئے تھے اور وہ جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ (ظلم و ستم) کر رہے تھے اس کو دیکھ رہے تھے (ان کے ملعون ہونے کی خبر دینے سے تسلی مومنین کی ظاہر ہے کہ اسی طرح جو کافر اس وقت مسلمانوں پر ظلم کر رہے ہیں وہ بھی گرفتار لعنت ہوں گے جس کا اثر خواہ دنیا میں بھی مرتب ہو جیسے غزوہ بدر وغیرہ میں مقتول و مخذول ہوئے یا صرف آخرت میں جیسا عام کفار کے لئے یقینی ہے اور دشمن کے عذاب کی خبر سے تسلی ہونا امر طبعی ہے اور ان لوگوں کا بیٹھنا اس ظلم و ستم کے انتظام اور نگرانی کے لئے تھا اور لفظ شہود میں علاوہ نگرانی کے اشارہ ان لوگوں کی سنگدلی کی طرف بھی ہے کہ دیکھ کر بھی ترحم نہ آتا تھا اور اس کو خدا تعالیٰ کی لعنت میں خاص دخل ہے کہ یہ سنگدلی سبب لعنت ہے) اور ان کافروں نے ان مسلمانوں میں اور کوئی عیب نہیں پایا تھا بجز اس کے کہ وہ خدا پر ایمان لے آئے تھے جو زبردست (اور) سزا وار حمد ہے ایسا کہ اسی کی ہے سلطنت آسمانوں اور زمین کی (یعنی ایمان لانے پر یہ معاملہ کیا اور ایمان لانا کوئی خطا نہیں، پس بےخطا ان پر ظلم کیا اس لئے وہ لوگ ملعون ہوئے اور آگے ظالموں کے لئے عام و عید اور مظلوموں کے لئے عام وعدہ ہے) کہ اللہ ہر چیز سے خوب واقف ہے (مظلوم کی مظلومیت سے بھی پس اس کی نصرت کرے گا اور ظالم کی ظالمیت سے بھی تو اس کو سزا دے گا خواہ یہاں خواہ وہاں چناچہ آگے یہی مضمون ہے کہ) جنہوں نے مسلمان مردوں اور مسلمان عروتوں کو تکلیف پہنچائی اور پھر توبہ نہیں کی تو ان کے لئے جہنم کا عذاب ہے اور جہنم میں بالخصوص ان کے لئے جلنے کا عذاب ہے (عذاب میں ہر طرح کی تکلیف داخل ہے۔ سانپ، بچھو، طوق، زنجیریں، حمیم، غساق وغیرہ اور سب سے بڑھ کر جلنے کا عذاب ہے اس لئے اس کو بالتخصیص فرمایا یہ تو ظالم کے حق میں فرمایا آگے مؤمنین کے حق میں جن میں مظلوم بھی آگئے ارشاد ہے کہ) بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے ان کے لئے بہشت کے) باغ ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور یہ بڑی کامیابی ہے (اور اوپر دو مضمون تھے کفار کے لئے جہنم ہونا اور مؤمنین کے لئے جنت ہونا، آگے ان کے مناسب اپنے بعض افعال وصفات ان مضمونوں کی تقریر کے لئے ارشاد فرماتے ہیں کہ) آپ کے رب کی دارو گیر بڑی سخت ہے (پس کفار پر سزائے شدید کا واقع ہونا مستبعد نہیں اور نیز) وہی پہلی بار بھی پیدا کرتا ہے اور دوبارہ (قیامت میں بھی) پیدا کر دے گا (پس یہ شبہ بھی نہ رہا کہ گو بطش شدید ہے مگر قیامت ہی واقع نہ ہوگی جو کہ وقت بطش کا ہے اس سے تقریر ہوگئی وعید کفار کی اور (آگے تقریر ہے وعدہ مومنین کی کہ) وہی بڑا بخشنے والا (اور) بڑی محبت کرنے والا اور عرش کا مالک (اور) عظمت والا ہے (پس ایمان والوں کے گناہ معاف کر دے گا اور ان کو اپنا محبوب بنا لیگا، اور ذوالعرش اور مجید گو تعذی بےاثابت دونوں کے ساتھ متعلق ہوسکتا ہے کہ دونوں فرع ہیں صاحب سلطنت و کمال صفات کی، لیکن یہاں مقابلے کے قرینے سے ان پر اثابت کا متفرع کرنا مقصود ہے اور آگے دونوں کے اثبات کے لئے ایک صفت ارشاد ہے کہ) وہ جو چاہے سب کچھ کر گزرتا ہے (آگے مؤمنین کی مزید تسلی اور کفار کی مزید تنبیہ کے لئے بعض خاص مغضوبین کا حال بیان فرماتے ہیں کہ) کیا آپ کو ان لشکروں کا قصہ پہنچا ہے یعنی فرعون (اور آل فرعون) اور ثمود کا (کہ کس طرح کفر کیا اور کیونکر گرفتار عذاب ہوئے اس سے مؤمنین کو تسلی حاصل کرنا چاہئے اور کفار کو ڈرنا چاہئے مگر کفار بالکل عذاب سے نہیں ڈرتے) بلکہ یہ کافر (خود قرآن کی) تکذیب میں (لگے) ہیں (پس اس کے مضمون تعذیب کو بھی اور دیگر مضامین کو بھی جھٹلاتے ہیں) اور (انجام کار اس کی سزا بھگتیں گے کیونکہ) اللہ ان کو ادھر ادھر سے گھیرے ہوئے ہے (اس کے قبضہ قدرت اور عقوبت سے بچ نہیں سکتے اور ان کا قرآن کو جھٹلانا محض حماقت ہے کیونکہ قرآن ایسی چیز نہیں جو جھٹلانے کے قابل ہو) بلکہ وہ ایک باعظمت قرآن ہے جو لوح محفوظ میں (لکھا ہوا) ہے (جس میں کوئی تغیر و تبدل متحمل نہیں، وہاں سے نہایت حفاظت کے ساتھ صاحب وحی کے پاس پہنچایا جاتا ہے کما قال تعالیٰ فی سورة الجن، فانہ یسلک من بین یدیہ ومن خلفہ رصدا پس ایسی صورت میں تکذیب قرآن کی بلاشبہ جہالت و موجب عقوبت ہے

Post a Comment

0 Comments