سورۃ المطففین مکمل تفسیر




 سورۃ المطففین

خلاصہ تفسیر 

بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی کہ جب لوگوں سے (اپنا حق) ناپ کرلیں تو پورے لے لیں اور جب ان کو ناپ کر یا تول کردیں تو گھٹا دیں (گو لوگوں سے اپنا حق پورا لینا مذموم نہیں ہے مگر اسکے ذکر کرنے سے مقصود خود اس پر مذمت کرنا نہیں ہے بلکہ کم دینے پر مذمت کی تاکید وتقویت ہے یعنی کم دینا اگرچہ فی نفسہ مذموم ہے لیکن اس کے ساتھ اگر دوسروں کی ذرا رعایت نہ کی جاوے تو اور زیادہ مذموم ہے، بخلاف رعایت کرنے والے کے کہ اگر اس میں عیب ہے تو ایک ہنر بھی ہے اس لئے اول شخص کا عیب اشد ہے اور چونکہ اصل مقصود ومذمت ہے کم دینے کی اس لئے اس میں ناپ اور تول دونوں کا ذکر کیا تاکہ خوب تصریح ہوجاوے کہ ناپنے میں بھی کم دیتے اور تولنے میں بھی کم دیتے ہیں اور چونکہ پورا لینا فی نفسہ مدار مذمت کا نہیں اس لئے وہاں ناپ اور تول دونوں کا ذکر نہیں بلکہ ایک ہی کا ذکر کیا پھر تخصیص ناپ کی شاید اس لئے ہو کہ عرب میں زیادہ دستور کیل کا تھا خصوصاً اگر آیت مدنی ہو جیسا روح المعانی میں بروایت نسائی وابن ماجہ و بیہقی 

اس کا نزول اہل مدینہ کے باب میں لکھا ہے تو اس وقت اس تخصیص کی وجہ زیادہ ظاہر ہے کیونکہ مدینہ میں کیل کا دستور مکہ سے بھی زیادہ تھا، آگے ایسا کرنے والوں کو ڈرایا گیا ہے کہ) کیا ان لوگوں کو اس کا یقین نہیں ہے کہ وہ ایک بڑے سخت دن میں زندہ کرکے اٹھائے جاویں گے جس دن تمام آدمی رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے (یعنی اس روز سے ڈرنا چاہئے اور تطفیف یعنی لوگوں کی حق تلفی سے توبہ کرنا چاہئے اس بعث وجزا کو سنکر جو مومن تھے وہ ڈرگے اور جو کافر تھے وہ انکار کرنے لگے، اس لئے آگے انکار پر تنبیہ فرما کر فریقین کی جزاء کی تفصیل فرماتے ہیں کہ جیسا کفار لوگ جزا وسزا کے منکر ہیں) ہرگز (ایسا) نہیں (بلکہ جزا وسزا ضروری الوقوع ہے، جن اعمال پر جزا وسزا ہوگی وہ منضبط اور محفوظ ہیں اور اس مجموعہ کا بیان یہ ہے) بدکار (یعنی کافر) لوگوں کا نامہ عمل سجین میں رہے گا (وہ ایک مقام ساتویں زمین میں ہے جو مقام ہے ارواح کفار کا، کذافی تفسیر ابن کثیر عن کعب وفی الدر المنثور عن ابن عباس و مجاہد وفرقد وقتادة میں منقول ہے، آگے ڈرانے کے لئے سوال ہے کہ) اور آپ کو کچھ معلوم ہے کہ سجین میں رکھا ہوا نامہ عمل کیا چیز ہے وہ ایک نشان کیا ہوا دفتر ہے (نشان سے مراد مہر ہے کمافی الدر المنثور عن کعب الاحبار فیختم ویوضع ای بعدالموت مقصود یہ ہوگا کہ اس میں تغیر و تبدیل کا کچھ احتمال نہیں پس حاصل اس کا اعمال کا محفوظ ہونا ہے جس سے جزا کا بحق ہونا ثابت ہوا آگے ان اعمال کی جزاء کا بیان ہے کہ) اس روز (یعنی قیامت کے روز) جھٹلانے والوں کی بڑی خرابی ہوگی جو کہ روز جزاء کو جھٹلاتے ہیں اور اس (یوم جزا) کو تو وہی شخص جھٹلاتا ہے جو حد (عبدیت) سے گزرنے والا ہو مجرم ہو (اور) جب اس کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاویں تو یوں کہہ دیتا ہو کہ یہ بےسند باتیں اگلوں سے منقول چلی آتی ہیں (مطلب یہ بتلانا ہے کہ جو شخص روز قیامت کی تکذیب کرتا ہے وہ معتدی، اثیم، مکذب بالقرآن ہے آگے تکذیب روز جزاء پر جو صراحة مذکور ہے تنبیہ کی گئی ہے کہ یہ لوگ اس کو غلط سمجھ رہے ہیں) ہرگز ایسا نہیں (اور کسی کو یہ شبہ نہ ہو کہ شاید ان کے پاس کوئی دلیل نفی کی ہوگی جس سے یہ استدلال کرتے ہوں گے ہرگز نہیں) بلکہ (اصل وجہ تکذیب کی یہ ہے کہ) ان کے دلوں پر ان کے اعمال بد کا زنگ بیٹھ گیا ہے (اس سے استعداد قبول حق کی فاسد ہوگئی اسلئے براہ عناد انکار کرنے لگے آگے پھر انکار پر زجر ہے کہ جیسا یہ لوگ سمجھ رہے ہیں) ہرگز ایسا نہیں (آگے ویل کی کچھ تفصیل ہے کہ وہ خرابی یہ ہے کہ) یہ لوگ اس روز (ایک تو) اپنے رب (کا دیدار دیکھنے) سے روک دیئے جائیں گے پھر (صرف اسی پر اکتفا نہ ہوگا بلکہ) یہ دوزخ میں داخل ہوں گے پھر (ان سے) کہا جاوے گا کہ یہی ہے جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے (اور چونکہ یہ لوگ یوم دین کی تکذیب میں جس طرح اپنی سزا کو جھٹلاتے تھے اسی طرح مومنین کی جزا کو بھی جھٹلاتے تھے، آگے اس پر تنبیہ فرماتے ہیں کہ یہ جو مومنین کے اجروثواب کے منکر ہیں) ہرگز ایسا نہیں، (بلکہ ان کا اجر وثواب ضرور ہونے والا ہے جسکا بیان یہ ہے کہ) نیک لوگوں کا نامہ عمل علیین میں رہیگا (وہ ایک مقام ہے ساتویں آسمان میں جو مستقر ہے ارواح مومنین کا، کذافی تفسیر ابن کثیر عن کعب) اور (آگے تفحیم کے لئے سوال ہے کہ) آپ کو کچھ معلوم ہے کہ علیین میں رکھا ہوا نامہ عمل کیا چیز ہے وہ ایک نشان کیا ہوا دفتر ہے جس کو مقرب فرشتے (شوق سے) دیکھتے ہیں (اور یہ مومن کا بہت بڑا اکرام ہے جیسا کہ روح المعانی ہیں بتخریج عبد بن حمید حضرت کعب سے روایت ہے کہ جب ملائکہ مومن کی روح کو قبض کرکے لیجاتے ہیں تو ہر آسمان کے مقرب فرشتے اسکے ہاتھ ہوتے جاتے ہیں یہاں تک کہ ساتویں آسمان تک پہنچ کر اس روح کو رکھ دیتے ہیں، پھر فرشتے عرض کرتے ہیں کہ ہم اس کا نامہ اعمال دیکھنا چاہتے ہیں چناچہ وہ نامہ عمل کھول کر دکھلایا جاتا ہے (مختصراً) آگے ان کی جزاء آخرت کا بیان ہے کہ) نیک لوگ بڑی آسائش میں ہوں گے مسہریوں پر (بیٹھے بہشت کے عجائب) دیکھتے ہوں گے (اے مخاطب) تو ان کے چہروں میں آسائش کی بشاشت پہچانے گا (اور) ان کو پینے کیلئے شراب خالص سربمہر جس پر مشک کی مہر ہوگی ملے گی اور حرص کرنے والوں کو ایسی چیز کی حرص کرنا چاہئے (کہ حرص کے لائق یہی ہے خواہ صرف شراب مراد لیجاوے خواہ کل نعمائے جنت یعنی شوق ورغبت کی چیز یہ نعمتیں ہیں، نہ کہ دنیا کی ناقص اور فانی لذتیں اور ان کی تحصیل کا طریق نیک اعمال ہیں، پس اس میں کوشش کرنا چاہئے) اور اس (شراب) کی آمیزش تسنیم (کے پانی سے) ہوگی (عرب عموماً شراب میں پانی ملا کر پیتے تھے تو اس شراب کی آمیزش کے لئے تسنیم کا پانی ہوگا، آگے تسنیم کی شرح ہے) یعنی ایک ایسا چشمہ جس سے مقرب لوگ پانی پئیں گے، (مطلب یہ کہ سابقین یعنی مقربین کو تو خالص پینے کو اس کا پانی ملے گا اور اصحاب الیمین یعنی ابرار کو اس کا پانی دوسری شراب میں ملا کر ملے گا، کذافی الدر المنثور عن قتادہ ومالک ابن الحارث وابن عباس وابن مسعود وحذیفہ، اور یہ مہر لگنا علامت اکرام کی ہے ورنہ وہاں ایسی حفاظت کی ضرورت نہیں، اور مشک کی مہر کا مطلب یہ ہے کہ جیسے قاعدہ ہے کہ لاک وغیرہ لگا کر اس پر مہر کرتے ہیں اور ایسی چیز کو طین ختام کہتے ہیں وہاں شراب کے برتن کے منہ پر مشک لگا کر اس پر مہر کردی جاوے گی، یہاں تک فریقین کی جزائے اخروی کا الگ الگ بیان تھا آگے مجموعہ فریقین کا مجموعہ حال دنیا وآخرت مذکور ہے یعنی) جو لوگ مجرم (یعنی کافر) تھے وہ ایمان والوں سے (دنیا میں تحقیرا) ہنسا کرتے تھے اور یہ (ایمان والے) جب ان کافروں کے سامنے سے ہو کر گزرتے تھے تو آپس میں آنکھوں سے اشارے کرتے تھے (مطلب یہ کہ انکے ساتھ استہزا و تحقیر سے پیش آتے تھے) اور جب اپن گھروں کو جاتے تو (وہاں بھی ان کا تذکرہ کرکے) دل لگیاں (اور تمسخر) کرتے (مطلب یہ کہ غیبت و حضور ہر حالت میں انکی تحقیر و استہزاء کا مشغلہ رہتا، البتہ حضور میں اشارے چلا کرتے اور غیبت میں صراحة تذکرہ کرتے اور جب انکو دیکھتے تو یوں کہا کرتے کہ یہ لوگ یقیناً غلطی پر ہیں (کیونکہ کفار اسلام کو غلطی پر سمجھتے تھے) حالانکہ یہ (کافر) ان (مسلمانوں) پر نگرانی کرنے والے بنا کر نہیں بھیجے گئے (یعنی ان کو اپنی فکر کرنا چاہئے تھا، ان کے پیچھے کیوں پڑگئے پس ان سے دو غلطیاں ہوئیں اول اہل حق کے ساتھ استہزاء پھر اپنی اصلاح سے بےفکری) سو آج (قیامت کے دن) ایمان والے کافروں پر ہنستے ہوں گے، مسہریوں پر (بیٹھے ان کا حال) دیکھ رہے ہوں گے (درمنثور میں قتادہ سے منقول ہے کہ کچھ دریچے جھرو کے ایسے ہوں گے جن سے اہل جنت اہل نار کو دیکھ سکیں گے، پس ان کا برا حال دیکھ کر بطور انتقام کے ان پر ہنسیں گے آگے تقریر ہے اس سزا کی یعنی) واقعی کافروں کو انکے کئے کا خوب بدلہ ملا۔


Post a Comment

0 Comments