سورۃ عبس آیت ۱ سے ۱۰

 





 سورۃ  عبس آیت ۱ سے ۱۰

آیت نمبر 1-10


أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ


عَبَسَ وَتَوَلّٰٓى ۞ اَنۡ جَآءَهُ الۡاَعۡمٰىؕ‏ ۞ وَمَا يُدۡرِيۡكَ لَعَلَّهٗ يَزَّكّٰٓى ۞ اَوۡ يَذَّكَّرُ فَتَنۡفَعَهُ الذِّكۡرٰىؕ ۞ اَمَّا مَنِ اسۡتَغۡنٰى ۞ فَاَنۡتَ لَهٗ تَصَدّٰىؕ ۞ وَمَا عَلَيۡكَ اَلَّا يَزَّكّٰٓى ۞ وَاَمَّا مَنۡ جَآءَكَ يَسۡعٰى ۞ وَهُوَ يَخۡشٰى ۞ فَاَنۡتَ عَنۡهُ تَلَهّٰى‌ ۞


ترجمہ:

(پیغمبر نے) منہ بنایا، اور رخ پھیرلیا۔ ۞ اس لیئے کہ ان کے پاس وہ نابینا آگیا تھا۔ ۞ اور (اے پیغمبر) تمہیں کیا خبر ؟ شاید وہ سدھر جاتا۔ ۞ یا وہ نصیحت قبول کرتا، اور نصیحت کرنا اسے فائدہ پہنچاتا۔ ۞ وہ شخص جو بےپروائی دکھا رہا تھا۔ ۞ اس کے تو تم پیچھے پڑتے ہو۔ ۞ حالانکہ اگر وہ نہ سدھرے تو تم پر کوئی ذمہ داری نہیں آتی۔ ۞ اور وہ جو محنت کر کے تمہارے پاس آیا ہے۔ ۞ اور وہ دل میں اللہ کا خوف رکھتا ہے۔ ۞ اس کی طرف سے تم بےپروائی برتتے ہو۔ ۞


شان نزول

تفسیر:

1: یہ آیات ایک خاص واقعے میں نازل ہوئی تھیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک دن حضور سرور دو عالم ﷺ قریش کے کچھ بڑے بڑے سرداروں کو اسلام کی تبلیغ فرما رہے تھے، اور ان سے گفتگو میں مشغول تھے کہ اتنے میں آپ کے ایک نابینا صحابی حضرت عبداللہ بن ام مکتوم ؓ وہاں آگئے، اور چونکہ وہ نابینا تھے، اس لیے یہ نہ دیکھ سکے کہ آپ کن کے ساتھ گفتگو میں مصروف ہیں، چنانچہ انہوں نے آتے ہی آنحضرت ﷺ سے کچھ سکھانے کی درخواست شروع کردی۔ آنحضرت ﷺ کو ان کا یہ طریقہ پسند نہ آیا کہ دوسروں کی بات کاٹ کر انہوں نے بیچ میں مداخلت شروع کردی۔ اس لیے آپ کے چہرہ مبارک پر ناگواری کے آثار ظاہر ہوئے، اور آپ نے ان کی بات کا جواب دینے کے بجائے ان کافروں کے ساتھ اپنی گفتگو جاری رکھی۔ جب وہ لوگ چلے گئے تو یہ سورت نازل ہوئی جس میں آنحضرت ﷺ کے اس طریقے پر اللہ تعالیٰ نے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ منہ بنانے کو عربی میں ”عبس“ کہتے ہیں، چونکہ یہ سورت اسی لفظ سے شروع ہوئی ہے، اس لیے اس کا نام ”عبس“ ہے اور اس میں بنیادی تعلیم یہ دی گئی ہے کہ جو شخص دل میں حق کی طلب رکھتا ہو، اور سچے دل سے اپنی اصلاح چاہتا ہو، وہ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس کو وقت دیا جائے۔ اس کے برخلاف جن لوگوں کے دل میں حق کی طلب ہی نہیں ہے، اور وہ اپنی کسی اصلاح کی ضرورت نہیں سمجھتے، حق کے طلبگاروں سے منہ موڑ کر انہیں ترجیح نہیں دینی چاہیے۔



Post a Comment

0 Comments