سورۃ التكوير
مکمل تفسیر
جب آفتاب بےنور ہوجاوے گا اور جب ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر گر پڑیں گے اور جب پہاڑ چلائے جاویں گے اور جب دس مہینے کی گابھن اونٹنیاں چھٹی پھریں گی، اور جب وحشی جانور (مارے گھبراہٹ کے) سب جمع ہوجاویں گے اور جب دریا بھڑکائے جاویں گے (یہ چھ واقعے تو نفخہ اولیٰ کے وقت ہوں گے جبکہ دنیا آباد ہوگی اور اس نفخہ سے یہ تغیرات و تبدلات واقع ہوں گے اور اس وقت اونٹنیاں وغیرہ بھی اپنی اپنی حالت پر ہوں گی جنمیں بعضے وضع حمل کے قریب ہوں گی جو کہ عرب کے نزدیک سب سے زیادہ قیمتی مال ہے جس کی ہر وقت دیکھ بھال کرتے رہتے ہیں مگر اس وقت ہل چل میں کسی کو کسی کا ہوش نہ رہے گا اور وحوش بھی مارے گھبراہٹ کے سب گڈمڈ ہوجاویگے اور دریاؤں میں اول طغیانی پیدا ہوگی اور زمین میں شقوق واقع ہوجاویں گے جس سے سب شیریں اور شور دریا ایک ہوجاویں گے جس کا ذکر آئندہ سورة میں (آیت) واذا البحار فجرت میں فرمایا ہے۔ پھر شدت حرارت سے سب کا پانی آگ ہوجاوے گا، اول ہوا ہوجاوے پھر ہوا آگ بن جاوے اس کے بعد عالم فنا ہوجاوے گا) اور (اگلے چھ واقعات بعد نفخہ ثانیہ کے ہوں گے جن کا بیان یہ ہے کہ) جب ایک ایک قسم کے لوگ اکٹھے کئے جاویں گے (کافر الگ مسلمان الگ، پھر ان میں ایک ایک طریقہ کے الگ الگ) اور جب زندہ گاڑھی ہوئی لڑکی سے پوچھا جاوے گا کہ وہ کس گناہ پر قتل کیے گئی تھی (مقصود اس پوچھنے سے زندہ درگور کرنیوالے ظالموں کا اظہار جرم ہے) اور جب نامہ اعمال کھول دیئے جاویں گے (تاکہ سب اپنے اپنے عمل دیکھ لیں کقولہ تعالیٰ (یلقہ منشورا) اور جب آسمان کھل جاوے گا (اور اس کے کھلنے سے آسمان کے اوپر کی چیزیں نظر آنے لگیں گی اور نیز اس کے کھلنے سے غمام کا نزول ہوگا) اور جب دوزخ (اور زیادہ) دہکائی جاوے گی، اور جب جنت نزدیک کردی جاوے گی (کمافی سورة ق (آیت) وازلفت الجنتہ للمتقین، جب یہ سب واقعات نفخہ اولیٰ اور ثانیہ کے واقع ہوجاویں گے تو اس وقت) ہر شخص ان اعمال کو جان لیگا جو لے کر آیا ہے) اور جب ایسا واقعہ ہائلہ ہونیوالا ہے) تو (میں منکرین کو اس کی حقیقت بتلاتا ہوں اور مصدقین کو اسکے لئے آمادہ کرتا ہوں، اور یہ دونوں امر قرآن کی تصدیق اور اس پر عمل کرنے سے حاصل ہوتے ہیں کہ اس میں اس کا اثبات اور نجات کا طریق ہے اسلئے) میں قسم کھاتا ہوں ان ستاروں کی جو (سیدھے چلتے چلتے) پیچھے کو ہٹنے لگتے ہیں (اور پھر پیچھے ہی کو) چلتے رہتے (اور کبھی پیچھے چلتے چلتے اپنے مطالع میں) جا چھپتے ہیں (ایسا امر پانچ سیاروں کو پیش آتا ہے کہ کبھی سیدھے چلتے ہیں کبھی پیچھے چلتے ہیں اور ان کو خمسہ متحیرہ کہتے ہیں۔ زحل، مشتری، عطارد، مریخ، زہرہ) اور قسم ہے رات کی جب وہ جانے لگے، اور قسم ہے صبح کی جب وہ آنے لگے (آگے جواب قسم ہے) کہ یہ قرآن (اللہ کا) کلام ہے ایک معزز فرشتہ (یعنی جبرئیل علیہ السلام) کا لایا ہوا جو قوت والا ہے (کمافی النجم علمہ شدید القوی اور) مالک عرش کے نزدیک ذی رتبہ ہے (اور) وہاں (یعنی آسمانوں میں) اس کا کہنا مانا جاتا ہے (یعنی فرشتے اس کا کہنا مانتے ہیں جیسا حدیث معراج سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ انکے کہنے سے فرشتوں نے آسمانوں کے دروازے کھول دیئے اور (امانتدار ہے) کہ وحی کو صحیح پہنچا دیتا ہے پس وحی لانیوالا تو ایسا ہے) اور (آگے جن پر وحی نازل ہوئی ان کی نسبت ارشاد ہے کہ) یہ تمہارے ساتھ کے رہنے والے (محمد ﷺ جن کا حال بخوبی تم کو معلوم ہے) مجنوں نہیں ہیں (جیسا منکرین نبوت کہتے تھے) اور انہوں نے اس فرشتہ کو (اصلی صورت میں آسمان کے) صاف کنارہ پر دیکھا بھی ہے (صاف کنارہ سے مراد بلند کنارہ ہے کہ صاف نظر آتا ہے کمافی النجم وھو بالافق الاعلے ٰ ، اور اس کا مفصل بیان سورة نجم میں گزرا ہے) اور یہ پیغمبر مخفی (بتلائی ہوئی وحی کی) باتوں پر بخل کرنیوالے بھی نہیں (جیسا کاہنوں کی عادت تھی کہ رقم لے کر کوئی بات بتلاتے تھے اس سے کہانت کی بھی نفی ہوگئی اور اس کی بھی کہ آپ اپنے کام کا کسی سے معاوضہ لیں) اور یہ قرآن کسی شیطان مردود کی کہی ہوئی بات نہیں ہے (اس سے نفی کہانت کی اور تاکید ہوگئی، حاصل یہ کہ نہ آپ مجنوں ہیں نہ کاہن، نہ صاحب غرض، اور وحی لانیوالے کو پہچانتے بھی ہیں اور وحی لانیوالا ایسا ایسا ہے پس لا محالہ یہ اللہ کا کلام اور آپ اللہ کے رسول ہیں، اور یہ قسمیں مطلوب مقام کے نہایت مناسب ہیں چناچہ ستاروں کا سیدھا چلنا اور لوٹنا اور چھپ جانا مشابہ ہے فرشتے کے آنے اور واپس جانے اور عالم ملکوت میں جا چھپنے کے اور رات کا گزرنا اور صبح کا آنا مشابہ ہے قرآن کے سب ظلمت کفر کے رفع ہوجانے اور نور ہدایت کے ظاہر ہوجانے کے، جب یہ بات ثابت ہے) تو تم لوگ (اس بارہ میں) کدھر کو چلے جارہے ہو (کہ نبوت کے منکر ہو رہے ہو) بس یہ تو (بالعموم) دنیا جہان والوں کے لئے ایک بڑا نصیحت نامہ ہے (اور بالخصوص) ایسے شخص کے لئے جو تم میں سے سیدھا چلنا چاہے (عام لوگوں کے لئے ہدایت اس معنے سے ہے کہ ان کو سیدھا راستہ بتلادیا اور مومنین متقین کے لئے اس معنے سے کہ ان کو منزل مقصود پر پہنچا دیا) اور (بعض کے نصیحت قبول نہ کرنے سے اسکے نصیحت نامہ ہونے میں شبہ نہ کیا جاوے کیونکہ) تم بدون خدائے رب العالمین کے چاہے کچھ نہیں چاہ سکتے ہو (یعنی فی نفسہ تو نصیحت ہے لیکن تاثیر اس کی موقوف مشیت پر ہے جو بعض لوگوں کے لئے متعلق ہوتی ہے اور بعض کے لئے کسی حکمت سے متعلق نہیں ہوتی

0 Comments