تفسیر سورۃ الانشقاق مکمل



 تفسیر سورۃ الانشقاق مکمل



سورۃ الانشقاق

جب (نفخہ ثانیہ کے وقت) آسمان پھٹ جاوے گا (تاکہ اس میں سے غمام یعنی بادل کی شکل کی ایک چیز کا نزول ہو جس میں فرشتے ہوں گے جس کا ذکر پارہ وقال الذین لایرجون آیت و یوم تشفق السماء والخ میں ہے) اور اپنے رب کا حکم سن لیگا (اور مان لیگا، یہاں حکم سے مراد حکم تکوینی انشاق کا ہے اور ماننے سے مراد اس کا وقوع ہے) اور وہ (آسمان بوجہ محکوم قدرت ہونے کے) اسی لائق ہے (کہ جس امر کی مشیت اس کے متعلق ہو اس کا وقوع ضرور ہوجاوے) اور جب زمین کھینچ کر بڑھا دی جاوے گی (جس طرح چمڑا یا ربڑ کھینچا جاتا ہے، پس اس وقت کی مقدار سے اس وقت مقدار زیادہ ہوجاوے گی تاکہ سب اولین و آخرین اس میں سماجا ویں جیسا در منشور میں بسند جید حاکم کی روایت سے مرفوعاً وارد ہے تمد الارض یوم القیمتہ مدالادیم لخ پس آسمان کا یہ انشقاق اور زمین کا امتداد دونوں حساب محشر کے مقدمات میں سے ہیں) اور (وہ زمین) اپنے اندر کی چیزوں کو (یعنی مردوں کو) باہر اگل دیگی اور (سب مردوں سے) خالی ہوجاوے گی اور وہ زمین) اپنے رب کا حکم سن لیگی اور وہ اسی لائق ہے (اس کی تفسیر بھی مثل سابق ہے بس اس وقت انسان اپنے اعمال کو دیکھے گا جیسا آگ ارشاد ہے کہ) اے انسان تو اپنے رب کے پاس پہنچنے تک (یعنی مرنے کے وقت تک) کام میں کوششیں کر رہا ہے (یعنی کوئی نیک کام میں لگا ہوا ہے کوئی برے کام میں) پھر) (قیامت میں) اس (کام کی جزائ) سے جا ملے گا تو (اس روز) جس شخص کا نامہ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں ملے گا سو اس سے آسان حساب لیا جاوے گا اور وہ (اس سے فارغ ہو کر) اپنے متعلقین کے پاس خوش خوش آئیگا (آسان حساب کے مراتب مختلف ہیں، ایک یہ کہ اس پر بالکل عذاب مرتب نہ ہو۔ بعض کے لئے تو یہ ہوگا اور حدیث میں اسی کی تفسیر یہ آئی ہے کہ جس حساب میں مناقشہ (خوردہ گیری) نہ ہو صرف پیشیش ہوجاوے اور یہ ان کے لئے ہوگا جو بلا کسی عذاب کے نجات پائیں گے۔ دوسرا یہ کہ اس پر عذاء دائمی نہ ہو اور یہ عام مومنین کے لئے ہوگا۔ اور مطلق عذاب اس کے منافی نہیں) اور جس شخص کا نامہ اعمال (اسکے بائیں ہاتھ میں) اس کی پیٹھ کے پیچھے سے ملے گا (مراد اس سے کفار ہیں اور پشت کی طرف سے ملنے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں ایک یہ کہ اس کی مشکیں کسی ہوئی ہوں گی تو بایاں ہاتھ میں پشت کی طرف ہوگا دوسری صورت مجاہد کا قول ہے کہ اس کا بایاں ہاتھ پشت کی طرف نکال دیا جاوے گا کذا فی الدالمنشور) سو وہ موت کو پکاریگا (جیسا مصیبت میں عادت ہے موت کی تمنا کرنے کی) اور جہنم میں داخل ہوگا، یہ شخص (دنیا میں) اپنے متعلقین (اہل و عیال وحشم وخدم) میں خوش خوش رہا کرتا تھا (یہاں تک کہ فرط خوشی میں آخرت کی تکذیب کرنے لگا تھا جیسا کہ آگے ارشاد ہے کہ) اس نے خیال کر رکھا تھا کہ اس کو (خدا کی طرف) لوٹنا نہیں ہے (آگے رو ہے اس گمان کا کہ لوٹنا) کیوں نہ ہوتا (آگے لوٹنے کے بعد جزا کا اثبات ہے کہ) اسکا رب اس کو خوب دیکھتا تھا (اور اس کے اعمال پر جزا دینے کے ساتھ مشیت متعلق کرچکا تھا اس لئے جزا کا وقوع اس کا رب اس کو خوب دیکھتا تھا (اور اس کے اعمال پر جزا دینے کے ساتھ مشیت متعلق کرچکا تھا اس لئے جزا کا وقوع ضروری تھا) سو (اس بنا پر) میں قسم کھا کر کہتا ہوں شفیق کی اور رات کی اور ان چیزوں کی جن کو رات سمیٹ (کر جمع کر) لیتی ہے (مراد وہ سب جاندار ہیں جو رات کو آرام کرنے کے لئے اپنے اپنے ٹھکانے میں آجاتے ہیں) اور چاند کی جب وہ پورا ہوجاوے (یعنی بدربنجاوے، ان سب چیزوں کی قسم کھا کر کہتا ہوں) کہ تم لوگوں کو ضرور ایک حالت کے بعد دوسری حالت پر پہنچنا ہے (یہ تفصیل ہے یا یھا الانسان تا ملاقیہ کی، پس وماں جنس کو خطاب تھا یہاں دوسری حالت پر پہنچنا ہے (یہ تفصیل ہے یایھا الانسان تا ملاقیہ کی پس وہاں جنس کو خطاب تھا یہاں جمیع افراد کو خطاب ہے وہاں بقائے عمل کا ذکر مجملاً فرمایا، یہاں اس چیز کی تفصیل ہے جس سے روز محشر ملے گا یا اس کے سامنے آویگی اور وہ حالتیں ایک موت ہے اس کے بعد احوال برزخ اس کے بعد احوال قیامت پھر خود ان میں بھی تعدد و کثرت ہے اور ان قسموں کا مناسب مقام ہونا اس طرح ہے کہ رات کے احوال کا مختلف ہونا کہ اول شفق نمودار ہوتی ہے پھر زیادہ رات آتی ہے تو سب سو جاتے ہیں اور پھر ایک رات کا دوسری رات سے نور قمر کی زیارت و نقصان میں مختلف ہونا، یہ سب مشابہ ہے اختلاف احوال بعد الموت کے، و نیز موت سے عالم آخرت شروع ہوتا ہے جیسے شفیق سے رات شروع ہوتی ہے پھر عالم برزخ میں رہنا مشابہ لوگوں کے سو رہنے کے ہے اور چاند کا پورا ہونا بعد محاق کے مشابہ ہے حیوہ قیامت کے بعد فناء عالم کے) سو (باوجود ان مقتضیات خوف و ایمان کے اجتماع کے) ان لوگوں کو کیا ہوا کہ ایمان نہیں لاتے اور (خود تو ایمان اور حق کی کیا طلب کرتے ان کی عناد کی یہ حالت ہے کہ) جب ان کے روبرو قرآن پڑھا جاتا ہے تو (اس وقت بھی خدا کی طرف) نہیں جھکتے بلکہ (بجائے جھکنے کے) یہ کافر (اور الٹی) تکذیب کرتے ہیں اور اللہ کو سب خبر ہے جو کچھ یہ لوگ (اعمال بد کا ذخیرہ) جمع کر رہے ہیں سو (ان اعمال کفر یہ کے سبب) آپ ان کو ایک دد ناک عذاب کی خبر دیدجیئے لیکن جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے ان کے لئے (آخرت میں) ایسا اجر ہے جو کبھی موقوف ہونے والا نہیں (عمل صالح کی قید شرط کے طور پر نہیں سبب کے طریق پر ہے۔ ۔

Post a Comment

0 Comments