سورۃ الطارق
آیت نمبر 1سے 17
وَالسَّمَآءِ وَالطَّارِقِۙ ۞ وَمَاۤ اَدۡرٰٮكَ مَا الطَّارِقُۙ ۞ النَّجۡمُ الثَّاقِبُۙ ۞ اِنۡ كُلُّ نَفۡسٍ لَّمَّا عَلَيۡهَا حَافِظٌؕ ۞ فَلۡيَنۡظُرِ الۡاِنۡسَانُ مِمَّ خُلِقَؕ ۞ خُلِقَ مِنۡ مَّآءٍ دَافِقٍۙ ۞ يَّخۡرُجُ مِنۡۢ بَيۡنِ الصُّلۡبِ وَالتَّرَآئِبِؕ ۞ اِنَّهٗ عَلٰى رَجۡعِهٖ لَقَادِرٌؕ ۞ يَوۡمَ تُبۡلَى السَّرَآئِرُۙ ۞ فَمَا لَهٗ مِنۡ قُوَّةٍ وَّلَا نَاصِرٍؕ ۞ وَالسَّمَآءِ ذَاتِ الرَّجۡعِۙ ۞ وَالۡاَرۡضِ ذَاتِ الصَّدۡعِۙ ۞ اِنَّهٗ لَقَوۡلٌ فَصۡلٌۙ ۞ وَّمَا هُوَ بِالۡهَزۡلِؕ ۞ اِنَّهُمۡ يَكِيۡدُوۡنَ كَيۡدًا ۞ وَّاَكِيۡدُ كَيۡدًا ۞ فَمَهِّلِ الۡكٰفِرِيۡنَ اَمۡهِلۡهُمۡ رُوَيۡدًا ۞
قسم ہے آسمان کی اور رات کو آنے والے کی۔ ۞ اور تمہیں کیا معلوم کہ وہ رات کو آنے والا کیا ہے ؟ ۞ چمکتا ہوا ستارا ۞ کہ کوئی جان ایسی نہیں ہے جس کی کوئی نگرانی کرنے والا موجود نہ ہو۔ ۞ اب انسان کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اسے کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے ؟
یعنی فرشتے رہتے ہیں آدمی کے ساتھ۔ بلاؤں سے بچاتے ہیں یا اس کے عمل لکھتے ہیں (موضح القرآن) اور قسم میں شاید اس طرف اشارہ ہو کہ جس نے آسمان پر ستاروں کی حفاظت کے ایسے سامان کئے ہیں، اس کو زمین پر تمہاری یا تمہارے اعمال کی حفاظت کرنا کیا دشوار ہے۔ نیز جس طرح آسمان پر ستارے ہر وقت محفوظ ہیں مگر ان کا ظہور خاص شب میں ہوتا ہے۔ ایسے ہی سب اعمال نامہ اعمال میں اس وقت بھی محفوظ ہیں، مگر ظہور ان کا خاص قیامت میں ہوگا۔ جب یہ بات ہے تو انسان کو قیامت کی فکر چاہیے۔ اور اگر اس کو مستبعد سمجھتا ہے تو اس کو غور کرنا چاہیے کہ وہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے۔
اسے ایک اچھلتے ہوئے پانی سے پیدا کیا گیا ہے۔ (منی کا پانی جو اچھل کر نکلتا ہے)۞ جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے۔
کہتے ہیں کہ مرد کی منی کا انصباب پیٹھ سے ہوتا ہے اور عورت کا سینہ سے۔ اور بعض علماء نے فرمایا کہ پیٹھ اور سینہ تمام بدن سے کنایہ ہے۔ یعنی مرد کی ہو یا عورت کی تمام بدن میں پیدا ہو کر پھر جدا ہوتی ہے اور اس کنایہ میں تخصیص صلب و ترائب کی شاید اس لئے ہو کہ حصول مادہ منویہ میں اعضاء رئیسہ (قلب، دماغ، کبد) کو خاص دخل ہے جن میں سے قلب و کبد کا تعلق و تلبس ترائب سے اور دماغ کا تعلق بواسطہ تخاع (حرام مغز) کے صلب سے ظاہر ہے۔ واللہ اعلم۔
بیشک وہ اسے دوبارہ پیدا کرنے پر پوری طرح قادر ہے۔
یعنی اللہ پھیر لائے گا مرنے کے بعد (موضح القرآن) حاصل یہ کہ نطفہ سے انسان بنادینا بہ نسبت دوبارہ بنانے کے زیادہ عجیب ہے جب یہ امر عجیب اس کی قدرت سے واقع ہو رہا ہے تو جائز نہیں کہ اس سے کم عجیب چیز کے وقوع کا خواہ مخواہ انکار کیا جائے۔
جس دن تمام پوشیدہ باتوں کی جانچ ہوگی۔ ۞
یعنی سب کی قلعی کھل جائے گی۔ اور کل باتیں جو دلوں میں پوشیدہ رکھی ہوں یا چھپ کر کی ہوں ظاہر ہوجائیں گی اور کسی جرم کا اخفاء ممکن نہ ہوگا۔
تو انسان کے پاس نہ اپنا کوئی زور ہوگا نہ کوئی مددگار۔ ۞ قسم ہے بارش بھرے آسمان کی۔ ۞ اور پھوٹ پڑنے والی زمین کی۔ ۞ کہ یہ (قرآن) ایک فیصلہ کن بات ہے۔ ۞ اور یہ کوئی مذاق نہیں ہے۔ ۞
یعنی قرآن اور جو کچھ وہ معاد کے متعلق بیان کرتا ہے، کوئی ہنسی مذاق کی بات نہیں۔ بلکہ حق و باطل اور صدق و کذب کا دو ٹوک فیصلہ ہے۔ اور لاریب وہ سچا کلام اور ایک طے شدہ معاملہ کی خبر دینے والا ہے جو یقینا پیش آکر رہے گا۔ (تنبیہ) قسم کو اس مضمون سے یہ مناسبت ہوئی کہ قرآن آسمان سے آتا ہے اور جس میں قابلیت ہو مالا مال کردیتا ہے جیسے بارش آسمان کی طرف سے آتی ہے اور عمدہ زمین کو فیضیاب کرتی ہے۔ نیز قیامت میں ایک غیبی بارش ہوگی جس سے مردے زندہ ہوجائیں گے جس طرح یہاں بارش کا پانی گرنے سے مردہ اور بےجان زمین سرسبز ہو کر لہلہانے لگتی ہے۔
بیشک یہ (کافر لوگ) چالیں چل رہے ہیں۔ ۞ اور میں بھی اپنی چال چل رہا ہوں۔ ۞ لہذا (اے پیغمبر) تم ان کافروں کو ڈھیل دو ، انہیں تھوڑے دنوں اپنے حال پر چھوڑ دو۔۞

1 Comments